سوشل میڈیا اور اس کے اثرات ۔۔۔ تحریر : فضاء عروج انور ( خانیوال)

سوشل میڈیا کو فارسی زبان میں فضائی مجازی اور اردو زبان میں سماجی ذرائع ابلاغ کہا جاتا ہے۔ اس دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سوشل میڈیا کے بہت سے ذرائع موجود ہیں ۔ جن میں قابلِ ذکر انٹرنیٹ، فیس بک، ٹویٹر ، یوٹیوب ، ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور واٹسپ وغیرہ ہیں ۔ دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے ۔ اس کے ذریعے میلوں دور بھی آسانی سے رابطہ ممکن ہے ۔ سوشل میڈیا ناصرف علم سیکھنے اور سیکھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے بلکہ اس کا مثبت استعمال بہت فائدے مند بھی ہے۔
لیکن موجودہ دور میں اس کا غلط استعمال لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کر رہا ہے ۔ کوئی بھی چیز بذات خود اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اس کو اچھا یا برا بناتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بچے، بوڑھے اور خاص کر نوجوان نسل اپنا قیمتی وقت اس پر صرف کر رہے ہیں ۔ وقت انسانی زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے۔ وقت کو ضائع کرنا ، زندگی کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ جو قومیں وقت کی قدر نہیں کرتیں ، وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتیں۔
سوشل میڈیا نے جہاں میلوں دور کے فاصلے کو کم کیا ہے وہیں پر ایک ہی گھر کے افراد میں فاصلوں کو بڑھا بھی دیا ہے ۔ موجودہ دور میں گھر کے تمام افراد کے پاس انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی سہولت ہمہ وقت میسر ہوتی ہے۔ اور وہ اپنا وقت گھر والوں اور دوستوں کی بجائے اس پر گزار دیتے ہیں ۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا نے طلباء کی تعلیم کو بھی متاثر کیا ہے۔ طلباء اپنا قیمتی وقت پڑھائی کی بجائے سوشل میڈیا پر ضائع کر دیتے ہیں ۔ جس سے ان کی تعلیم بہت حد تک متاثر ہوتی ہے ۔ نوجوان نسل کسی بھی قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ۔ اور کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کا دارومدار بھی انہی کی محنت اور جدوجہد پر ہوتا ہے ۔ لیکن سوشل میڈیا نے نوجوانوں سے محنت کو سلب کر کے انہیں سست اور کاہل بنا دیا ہے ۔
رہبر معظم کا ایک بیان ہے:
“سوشل میڈیا نوجوانوں کی قتل گاہ ہے”
اس پر فتن دور میں سوشل میڈیا بھی ایک فتنے سے کم نہیں ہے ۔ آج کل سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی مواد تک رسائی بہت آسانی سے ممکن ہے ۔ اور اس کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی اور بے حیائی سے کوئی بھی شخص محفوظ نہیں ہے ۔ ٹک ٹاک کے ذریعے لڑکیاں چست لباس پہن کر اپنے جسم کی نمائش کرکے اور ناچ گانا دکھا کر اپنے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کو گمراہی کی دلدل میں دھکیل رہی ہیں۔
ہمارا ملک پاکستان لا الہ الااللہ اور اسلام کے نظریہِ اساس پر معرض وجود میں آیا تھا۔ اور پاکستان میں ہر کام قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر کیا جانا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے آج پاکستان میں کوئی بھی کام اس نظریے کے مطابق نہیں ہو رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان فتنہ پرور لوگوں کی روک تھام کریں اور پاکستان میں قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کریں تاکہ ہمارا ملک پاکستان بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں