پھول بنیں کانٹے نہیں ۔۔۔ تحریر : ثناء فاطمہ وڑائچ

ہماری زندگیوں میں بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ہمیشہ دوسروں کا بُرا کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔اُن کی سوچوں کا محور بھی یہی بات ہوتی ہے کہ کیسے کسی کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے تکلیف دی جا سکتی ہے۔یوں مانو جیسے انہیں یہ سب کر کے سکون ملتا ہو کسی کو اذیت میں دیکھنا انہیں خوشی دیتا ہو۔دوسروں کی آنکھیں نم دیکھ کر اچھا محسوس ہوتا ہو۔
مگر کسی کی راہ میں کانٹے بچھا کر خود پھولوں کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ایسے لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اک دن وقت اپنا آپ دہرائے گا ان کی طرف انکا کیا لوٹ کر آئے گا کیونکہ مکافاتِ عمل تو پھر اٹل ہے۔
یوں بھی تو ہو سکتا ہے نہ کہ ہم لوگ دوسروں کے راستے کا کنکر یا کانٹا بننے کی بجائے راستے کا پھول بنیں جِسے دیکھ کر کسی کے چہرے پہ بےساختہ مسکان آ جائے۔
مگر پھول بننا تھوڑا مشکل کام ہے کانٹا بننے کی نسبت لیکن اس میں سکون اور جزا حد سے زیادہ ہے۔دوسروں کے آنسو پونچھ کر زخموں کی مرہم بننے میں اکثر اپنا آپ مارنا پڑتا ہے۔اپنے دکھ تکالیف بھول کر دوسروں کے غم بانٹنے پڑتے ہیں۔خود بےسہارا ہوتے ہوئے دوسروں کا سہارا بننا آسان کام نہیں۔
مگر آسانیاں بانٹیں گے تو ہی آسانیاں ملیں گی۔خوشیوں کو تقسیم کریں گے تو اپنی رسائی میں بھی خوشیاں ہونگی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھوڑا سا اگر کھانا ہوتا اور کوئی سائل آ جاتا تو وہ اپنی بھوک کو نظر انداز کر کے سائل کو کھانا دے دیتے۔
اصحابِ محمدﷺ کا بھی یہی وطیرا تھا کہ خود تکلئف سہہ لیتے مگراپنے مسلمان بھائی کی تکلیف دور کر دیتے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ دوسروں کی مدد اور آسانی کے لیے گھر کا سارا سامان اٹھا لاتے ہیں۔
یوں ہوتے ہیں جنتوں کے سودے منافع بخش سودے کہ جن کے بدلے آپکو رب ملے جنت ملے اور دلی راحت محسوس ہو۔
ہم کیسے دوسروں کو اذیت دےکر رب سے جنت کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔جبکہ رب باری تعالی فرماتے ہیں کہ میں اپنے حقوق میں غلطی کوتاہی تو معاف کرسکتا ہو مگر اپنےبندوں کے حقوق میں کوتاہی معاف نہیں کرونگا۔
سو مخلوق خدا کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے بنیں۔انسانوں کے درد بانٹنے والے مشکلات کم کرنے والے آنسو پونچھ کر چہروں پہ مسکراہٹیں سجانے والے بنیں۔مایوسیوں اور اندھیروں میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے لیے امید کی کرن بنیں۔بےسہاروں کا سہارا بنیں اسی میں بقاء ہے۔رب کی رضا ہے اِس میں۔رب کی خوشنودی کی خاطر آئیں ملکر خوشیوں کے بیج بوئیں تاکہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں محبتوں کے سائے تلے جی سکیں۔

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے واسطے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

اپنا تبصرہ بھیجیں