استاد ۔۔۔ تحریر : نادیہ پروین (احمد پور سیال)

استاد کیسے کہتے ہیں ؟
استاد کا معنی ہے “سیکھانے ولا ”
کیا ہر بات سیکھانے والا استاد ہے ؟ کیا جھوٹ بولنے کی ترغیب دینے والا استاد ہے ؟ کیا چوری سیکھانے والا استاد ہے ؟ ہاتھ پکڑ کر برائی کی دلدل میں پھنسانے والا استاد ہے ؟
جی نہیں ۔۔۔۔
استاد ان کو نہیں کہتے ۔
کیونکہ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن پر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ و تعالیٰ کو عامل مقرر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
“تم آسانی پیدا کرنا ، مشکل میں نہ ڈالنا ، خوشخبری دینا ،دور نہ بھگانا، آپس میں اتفاق رکھنا اور اختلاف نہ کرنا” (صحیح مسلم:4526).
اگر یہ سب استاد نہیں ہیں تو پھر کون ہے استاد؟
میں سوچتی تھی سیکھانے والے کو استاد ہی کیوں کہتے ہیں آج غور کیا تو جانا
لفظ استاد مجموعہ ہے پانچ حروف کا ا،س،ت،ا،د

اللہ سے’ الف’ لیا
رسولِ خدا سے’ س’ لیا
جنت سے ‘ت’ لیا
انسان کا ‘الف’ ملایا
الدعوت کا ‘د’ جوڑ ا
ان سب سے واضح ہوا کہ استاد وہ شخص ہے جو اعلان جنت کا مقصد واضح کرتا ہے کہ جنت اسی کا مقدر ہے جو اللہ سبحان و تعالیٰ اور اس کے رسولوں سے جڑتا ہے ۔ استاد ہی تو بتاتا ہے اللّٰہ سبحان و العزت کون ہے اور انسان کون ہے ۔ انسان کا تعلق رب کریم سے کس طرح پروان چڑھتا ہے ۔ ایسے ہی تو استاد کو روحانی والدین نہیں کہا گیا کیونکہ روح ہی آسمانوں سے آئی ہے اور ہمیں ہمارے رب سے منسلک کرتی ہے جس کی نشوونما استاد سر انجام دیتا ہے ۔
سورت ال عمران (110)میں اللہ  تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
“مسلمانو!تم بہترین امت ہو جسے لوگوں (کی رہنمائی)کےلیے پیدا کیا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہواور برائی سے روکتے ہو”.
جب جب استاد کا تزکرہ کیا جائے تو ہمیں ایک شفیق پرچھائی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔استاد ایک ایسی شخصیت ہے جو خلوص و محبت کا پیکر ہے ۔ استاد اور شاگرد کا تعلق ریاکاری سے پاک ہے ۔ جھوٹ و فریب اس رشتہ کے آس پاس نہیں ہیں ۔استاد کا دل حسد و بغض سے کوسوں دور ہیں ۔استاد کی ذمہ داری حقیقی والدین سے کئی گنا کٹھن ہے ۔استاد بچوں کا رہنما ہے جس کے ہر قدم کے نشان پر طلباء اپنے قدم رکھتے منزل کی طرف گامزن ہوتے ہیں ۔ استاد وہ عظیم ہیستی ہے جو اپنے طلباء کو اپنے سے زیادہ کامیابی کی سیڑھی پر چڑھنے میں مدد دیتا ہے ۔ جب کبھی بچوں کے قدم لڑکھڑاتے ہیں تو وہ سہارا دیتا ہے جب وہ بھٹک جائیں تو استاد درست سمت کی نشانی دہی کرتا ہے ۔جب طلباء مایوس ہوں تو ان کے حوصلے بلند کرتا ہے ۔جو طلباء کی بلند منزل پر حسد کی بجائے فخر محسوس کرتا ہے ۔استاد طلباء کی پریشانی میں خود بے چین رہتا ہے کیونکہ وہ ان طلباء کی ناکامی کو اپنی ناکامی سمجھتا ہے ۔استاد بچوں کو اچھائی اور برائی کا فرق واضح کرتا ہے ۔حلال و حرام میں تمیز کرتا ہے۔طلباء کی کردار سازی کرنا استاد اپنا اولین فرض مانتا ہے ۔طلباء کی شخصیت کو نکھارتا ہے۔ان میں جینے کی امنگ پیدا کرتا ہے۔ طلباء کو نئے خواب دیکھنے سیکھاتا ہے اور ان خوابوں کی منزل کی طرف ان کی توجہ مرکوز کرواتا ہے ۔استاد ہی معاشرے کا معمار ہے جس نے جہالت کو علم کے نور سے ختم کیا۔
استاد تو قابل عزت،قابل احترام اورقابل محبت ہے ۔استاد کی عظمت ہر دور میں انمول رہی ہے ۔میں رب الرحمان کی شکر گزار ہوں جس نے مجھے ہمیشہ بہترین سے بہترین اساتذہ ادا کیے ۔ جہنوں نے نہ صرف پڑھایا ،سیکھایا بلکل زندگی کی اونچ نیچ بتائی ۔ ہمیشہ میرا حوصلہ اور ہمت بنے ۔ مجھے پریشانیوں سے لڑنا سیکھایا۔ خوشیوں میں رب الرحیم کا شکر کرنا سکھایا ۔ شخصیت کے روشن پہلوؤں سے روشناس کرایا۔میری زندگی کی ہر کامیابی میرے اساتذہ کے مرہونِ منت ہے ۔اللہ سبحان و تعالیٰ میرے تمام اساتذہ کو دنیا و آخرت میں اپنی رحمت کے سائے میں رکھے اور اپنی بارگاہ میں سرخرو کرے ۔ آمین
تیرے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی

اپنا تبصرہ بھیجیں