نازک کلی ۔۔۔ تحریر : فوزیہ بلال ( کراچی )

سورج کی ڈھلتی کرنیں ، شور مچاتے پرندے ، ڈھلتا یہ دن۔آج بھی ان سب میں کھوئی یہ معصوم سی لڑکی کسی اور جہاں کی ہی لگ رہی تھی ۔اپنے آپ کو مکمل سلیقے کے ساتھ حجاب میں چھپائے اک ان چھوئی شہزادی لگ رہی تھی۔ اسکے کچھ فاصلے پر دو بچے کھیل رہے تھے لیکن یہ ان سب سے بے نیاز رب کی بنائی اس کائنات میں کھوئی ہوئی تھی ، باغ میں لہراتے یہ پھول ہمیشہ اس کو پسند تھے۔ وہ ہمیشہ اس جگہ بیٹھے ان پھولوں کو دیکھتے ، ڈھلتے اس سورج کو دیکھتے بہت کچھ اخذ کیا کرتی تھی۔ وه اکثر سوچا کرتی تھی کے یہ دل بھی تو ایک باغ کی مانند ہے۔جس میں شفقت بھی اگتی ہے اور ڈر بھی ، ناراضگی بھی پنپتی تھی اور محبت بھی، یہ تو بس انسان پے منحصر ہے کے وہ کیسا بیچ بوتے ہیں۔ اس دل سے کسی کی دُنیا آباد کرتے ہیں یا ویران کرتے ہیں ، اس دل سے اپنے لیے صراط المستقیم کا راستہ چنتے ہیں یا جہنم کا۔
حیا جب بھی اُداس ہوتی تھی وہ ہمیشہ اس باغ میں آکر بیٹھ جایا کرتی ،لوگوں سے بے نیاز رب کی بنائی اس خوب صورت کائنات میں غور فکر کرتی اور اپنے لیے ہمیشہ ایک نیا عزم لیکر اٹھتی تھی۔ وہ بہت گہری سوچ کی مالک تھی۔ اس نے اپنی اُداسی ،اپنے مسائل پریشانیوں کو ختم کرنے کیلئے کبھی کسی انسان کو ڈھال نہیں بنایا تھا۔اس سے پسند ہی نہیں تھا کے وہ کسی اپنے جیسے کمزور انسان کے آگے روئے ، اپنی پریشانیوں کا اشتہار لگائے، رب کی اس پے ڈالی گئ آزمائشوں کو تماشہ بنا دے ، ہاں اس کے آنسوں کبھی کبھی بے اختیار اسکی آنکھوں سے گر کے اس کے حجاب میں جذب ہوجایا کرتے تھے ، کبھی کبھی اسکی سسکیاں ضرور بلند ہوجایا کرتی تھیں لیکن حیا نے کبھی بھی کسی کو یہ اخیتار نہیں دیا تھا کے کوئی اس کے آنسوں صاف کرے اسکی سسکیوں کو ہنسی میں بدلے۔ یہ سہارا دینے والے ، آنسوں صاف کرنے والے کس قدر انسان کو لا چار کردیتے ہیں اسکو اچھی طرح معلوم تھا ، یہ دنیاوی سہارے کسی معذوری سے کم نہیں ہوتے۔ یہ سب حقیقتیں انسان جس قدر جلدی جان لے اتنا ہی اس کیلئے زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ دل میں جلتے اُمیدوں کے دیوں کے رخ جس قدر رب رب العالمین کی طرف رکھے جائیں اتنا ہی بہتر ہے۔آج بھی اسکو یاد تھا وہ کس قدر اپنی معصومیت کی وجہ سے لوگوں کے ہاتھوں کھلونا بنی یہ تو بس رب کا کرم تھا جس نے اسکی حفاظت فرمائی ورنہ اپنوں نے کہیں بھی اپنے ہونے کا نام و نشان بھی نہ چھوڑا تھا۔
حیا کو پورے آٹھ سال ہوگئے تھے پردہ کرتے، لیکن اس پردے کو سوائے گھر کے چند افراد کے باقی كسی نے قبول نہ کیا تھا۔ اسکا پردہ کرنا ،جامعہ میں درس نظامی کیلئے جانا لوگوں کیلئے فضول کام تھے۔جب بھی جس کا دل چاہتا جی بھر کے سناتا، یہ جانے بنا کے حیا کے دل پے اسکا کیا اثر پڑے گا۔
کزنز جب اچانک گھر آجاتے تو ضرور اسکے پردے کا تماشہ بنا کر جاتے ، انکا اچانک گھر میں آجانا اور بولنا حیا اب تو تمہارا چہرہ دیکھ لیا اب کیسا پردہ ،ہمیشہ اس کو اذیت میں مبتلا کرتا تھا ،انکا طنزیہ ہنسنا اسکو فریبی مسکراہٹ سے کم نہ لگتا تھا لیکن اس نے ہمیشہ برداشت کیا تھا ، والد کا خاموشی سے سب دیکھنا لیکن حیا کیلئے کوئی قدم نہ اٹھانا بے حد تکلیف ده تھا لیکن اس نے تکلیفوں کو سہنا ہی سیکھا تھا سو آج بھی سہ رہی تھی۔ وہ بے حد صابر تھی اس کے صبر کا پیمانہ لبریز صرف رب کے حضور ہوتا ہے اسکی آنکھیں جب آنسوں سے تر ہوتیں اور گلہ جب شدت تکلیف سے روند جاتا تو محسوس ہوتا اس نے فرشتوں کو بھی رلا دیا ہوگا۔ اسکی سسکیاں جب دیوار سے لوٹ کر واپس آتی تو کمرے کی ہر چیز کو درد کی انتہا محسوس ہوتی۔
آج بھی اسکے چاہنے والے بھائی نے اسکو کہا تھا جسکی وہ جان ہوا کرتی تھی آج ان کیلئے شرم کا باعث تھی وہ اپنی ہی دھن میں بولتا جا رہا تھا اور حیا کو لگا تھا اسکا دل پھٹ جائےگا۔
تم اب پردہ چھوڑ دو ۔کون تم سے شادی کرے گا، آج کے دور میں اتنا پارسائی کسی کو نہیں اچھی لگتی ، اپنے آپ کو اس قید سے نکالو، یہاں حقیقت ہے کوئی خواب نہیں۔
جانے اس نے باقی کیا کچھ بولا ہوگا( لوگ صرف بولتے ہیں بولنے سے پہلے کبھی نہیں سوچتے اگر بولنے سے پہلے سوچ لیں تو زندگی کے آدھے مسائل ختم ہوجائیں)
اس سے تو کچھ یاد بھی نہ تھا سوائے زبان پے جاری کلمہ طیبہ کہ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ صرف اس ڈر سے پردہ چھوڑ دے کے اس کے رشتے نہیں آئیں گے ؟ اسکی شادی نہیں ہوگی؟ حیا نے اللّہ پاک کی رضا حاصل کرنے کیلئے پردہ کیا تھا خود کو چھپایا تھا ،سخت مجاہدوں، سخت مراحل سے خود کو گزارا تھا ، پھر ایسا کیسا ممکن ہے کہ اللہ پاک اس کیلئے راہیں ہموار نہ فرمائیں ، اگر یہ دنیا کیلئے کرتی یہاں کے لوگوں کیلئے کرتی تو پردہ چھوڑ بھی دیتی کیوں کے لوگوں کی سوچ پسند لمحہ لمحہ بدلتی ہے لیکن یہ تو اللہ کی رضا ،اللّہ کی پسند ،اللّہ کا حکم تھا ، یہ اللّہ کی چاہ تھی جو کبھی نہیں بدلتی پھر وہ کیسے بدل جاتی وہ دکھنے میں عام لیکن اپنی ذات میں بے حد خاص سی لڑکی کیسے راستہ بدل لیتی جبکہ وہ جانتی تھی جنت کا راستہ، اللّہ کے قرب کی منزل ان تکلیفوں کو صبر و تحمل سے برداشت کرنے سے حاصل ہوتی ہیں پھر وہ کیسے اللّہ کی رضا کی لذت کو کھو سکتی تھی سو اس نے آج بھی ہمت جمع کرنی تھی خود کو منفرد کرنا تھا وہ جانتی تھی اللّہ اپنے پیاروں کو ضرور آزماتا ہے لیکن اکیلا کبھی نہیں چھوڑتا ، وہ یقین کی راہ پر چلنے والی ، غموں کو ہرا دینے والی بینچ پے بیٹھی پھولوں کی یہ شیدائی لڑکی خود کتنا ویران ہوگئی تھی یہ کوئی نہیں جانتا تھا لیکن اس سے معلوم تھا ( اللہ ایسا خبر و بصیر ہے کہ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں ) آل عمران آیت7.
اور تم جہاں کہیں ہو وہ ( اللہ) تمہارے ساتھ ہے۔ حدید آیت 3۔ بھلے دُنیا اس سے لاتعلق ہوجائے ،یہ دنیا اسکی تکلیف سے واقف نہ ہو ، بھلے دنیاوی رشتے دور ہوجائیں لیکن جس ذات کیلئے حیا نے اتنا قربانیاں دی تھیں وہ تو اس کے ساتھ تھی ،وہ ذات اس کے ہر آنسوں سے واقف تھی ، اس کے ہر درد کو جاننے والی تھی پھر کیسا غم؟ اور کیسی تکلیف؟ جب بادشاہ ہی اس کے ساتھ ہے جب اس کائنات کو چلانے والا ہی اس کے ساتھ ہے وہ اس وقت کائنات میں سب سے زیادہ بہادر لڑکی لگ رہی تھی بھلا کیوں نہ بہادر معلوم ہوتی اس کے ساتھ اللّہ ہے جو اللّہ ہر چیز پے قادر و مطلق ہے وہ اس پاک ذات سے محبت کرنے والی اور پاک ذات کے بتائے گئے راستے چلنے والی اسلام کی شہزادی تھی اور اسلام کی شہزادیاں کبھی کمزور نہیں ہوا کرتیں ، انکو قرآن ،رب و رسول محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کمزور ہونے دے ہی نہیں سکتی، یہ وہ مومنات ہیں جو اللّہ کی محبت میں رنگ جائیں تو نسلیں سنوار دیتیں ہیں ، توحید و رسالت کی محافظت کیلئے اپنے جواں لخت جگر کو شہادت تک پہنچا دیتی ہیں مجاہد پیدا کرتیں ہیں جو ہر آن نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں باغ میں بیٹھی اس لڑکی نے چکمتی آنکھوں سے سورج کو دیکھتے دل میں سوچا ان تمام مسائل کو ڈھل جانا تھا بلکل اس سورج کی طرح ، ان انسوں نے خوشی میں ضرور ڈھلنا تھا بلکل ان مہکتے پھولوں کی طرح ، مشکل کے ساتھ آسانی ہے فقط مشکل ہی تو نہیں آسانی بھی کہیں پنہا ہے جسکو اس نے تلاش کرنا تھا اور خود کو ہر مشکل و آسانی کیلئے تیار کرنا تھا آج بھی یہی عزم لیکر حیا نے اس باغ میں کھل کر سانس لیا تھا۔ اس باغ کی فضاؤں نے اس کے تن من کو معطر کردیا تھا اس وقت اس سے یہ دنیا بڑی خوب صورت لگی تھی۔ ہاں بلکل کیوں کے دل کا حال جس قدر خوب صورت ہوگا دیکھنے والے تمام مناظر خوب صورتی کا آئندہ پیش کریں گے وہ نازک کلی اب مسکرا کر قدموں کو نئے امتحان کیلئے تیار کرتے اس باغ کو الوداعی نظروں سے دیکھتے اس سے اوجھل ہو رہی تھی جس کی آنکھوں میں نیا عزم و حوصلہ تھا۔ اور دل یقین سے لبریز تھا اور مسکراہٹ نے دھیرے سے اسکے ہونٹوں کا احاطہ کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں