مصنف کون ہوتے ہیں؟ ۔۔۔ تحریر : فائزہ صابر ( لاہور )

مصنف کسے کہتے ہیں۔ اور ان کے کیا فرائض ہوتے ہیں۔ مصنف بننے کی شرائط کیا ہوتی ہیں۔ ایک مصنف کی شخصیت کیسی ہونی چائیے ۔یہ سب جاننا آج کے دور کے لوگوں کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ آج کل ہر کوئی اپنے آپ میں مصنف بنا بیٹھا ہے اور اپنے شیطانی خیالات کو اپنی تصنیف بتاتے ہوئے لوگوں میں بے حیائی پھیلانے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے ۔اس لئے سب سے پہلے ایک نظر مصنف کی تعریف پر ڈال لیتے ہیں کہ اصل میں مصنف کون کہلاتا ہے ۔مصنف سے مراد ہے۔ ” تصنیف کرنے والا ” یعنی ” کچھ لکھنے والا ” ، وہ مواد جو اس کا اپنا لکھا ہوا ہو ناکہ کسے دوسرے کا مواد ہو۔ کسی دوسرے کا مواد لکھنے والے کو کاتب کہتے ہیں،جیسے کاتب وحی وغیرہ ۔یہاں کچھ لکھنے سے مراد یہ نہیں کہ کچھ بھی اٹھا کر لکھ دیا جائے تو انسان مصنف کہلاتا ہے نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے۔ مصنف اصل میں ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنے
مشاہدات و نظریات ، اپنے تجربات، اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے کچھ ایسا لکھے جو پڑھنے والے کے دل پر اثر کرے، اور اس کی روح تک میں اتر جائے ، اس لکھے میں ایسی طاقت ہو کہ پڑھنے والا اپنے اندر مثبت تبدیلی پیدا کرنے پر مجبور ہو جائے ۔جس سے پڑھنے والے کے اندر ایک ایسی تحریک پیدا ہو جائے جو اسے اسکی منزل کی طرف گامزن کردے ،جس سے معاشرے کے لوگوں میں شعور پیدا ہو، جس سے انسان کو نئی سے نئی معلولات حاصل ہوں اور وہ اسکے علم میں اضافے کا سبب بنیں، جس سے معاشرے میں مثبت تبدیلی آئے ،وہی حقیقی معنوں میں اصل مصنف کہلاتا ہے ۔ مصنف ایک ایسا جادوگر ہوتا ہے جو اپنے لفظوں سے لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے ۔مصنف ایک ایسا طبیب ہوتا ہے جو اپنے پر تاثیر لفظوں سے لوگوں کے زخموں کو مندمل کرتا ہے۔ جس کے لفظوں کو پڑھ کر لوگوں کو شفا مل جاتی ہے۔ وہ اپنے لفظوں کی چاشنی سے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑتا ہے۔اس کے لفظوں میں ایسی قوت ہوتی ہے کہ جس سے حوصلہ شکن لوگوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ پھر سے زندگی کی دوڑ میں حصہ لیتے ہیں اور کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔ مصنف کی ایک خاص چیز جو میں نے بہت نوٹ کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ الفاظ نہیں بلکہ جذبات لکھتا ہے۔ وہ جذبات جو دوسروں کی سمجھ میں نہیں آتے،جنہیں عام لوگ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں لیکن مصنف ان جذبات کو لفظوں کے خاکے میں اس طرح سے ترتیب دے کے لکھتا ہے کہ پڑھنے والے کو لگتا ہے کہ یہ تو میری ہی کہانی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کبھی کبھی ہم کچھ پڑھ رہے ہوتے ہیں تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ یہ تو ہماری ہی بات ہو رہی ہے اسکی وجہ یہ ہےتمام لوگوں کے جذبات و احساسات ایک سے ہی ہوتے ہیں۔لیکن ہمیں اسکی سمجھ نہیں آتی ۔لیکن مصنف حضرات ان جذبات کو سمجھ جاتے ہیں اور پھر انہیں جذبات کو لفظوں کا خوبصورت جامہ پہنا کر ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں اور یوں ہمیں وہ کہانی اپنی ہی کہانی لگتی ہے اور ہم اس کہانی سے جڑ جاتے ہیں۔ یہ ہی تو مصنف کا خاصہ ہے کہ وہ لوگوں کے ناسمجھ آنے والے رویوں کو ،ناں سمجھ آنے والے احساسات کو اپنے تخلیقی صلاحیت سے اس طرح سے پیش کرتا ہے کہ وہ خوبصورت الفاظ لوگوں کا دل جیت لیتے ہیں ۔اور یہ سب ایک لکھاری کا ہی کمال ہوتا ہے کہ وہ لوگ کی سوچ تک رسائی حاصل کر کے ان ہی کے جذبات کو لفظوں کے سانچے میں ڈھال کر لوگوں کو یہ یقین دلاتا ہے کہ ان کے جذبات بہت اہم ہیں۔ نمرہ احمد کا ناول جنت کے پتے اور عمیرہ احمد کا ناول پیر کامل ۔یہ ایسے ناولز ہیں کہ جنہوں نے لوگوں کی اخلاقی تعمیر کی۔ انہیں دین کے احکامات پر عمل کرنا سکھایا۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں دین سے قریب کردیا۔ ایک عام انسان میں اور ایک مصنف میں صرف ایک چیز کا فرق ہوتا ہے۔ وہ ہے دونوں کا “سوچنے کا انداز” یہ سوچنے کا انداز ہی ہوتا ہے جس سے ایک مصنف دوسروں سے ممتاز نظر آتا ہے۔ کیونکہ اس کے سوچنے کا انداز دوسروں سے بالکل منفرد ہوتا ہے۔ اور اس انفرادیت کی بنا پر ہی وہ مصنف کہلاتا ہے۔ مصنف ایک راہنما ہوتا ہے جو لوگوں کو صحیح راستے کا تعین کرنا سکھاتا ہے۔ مصنف ہمارے فکری انداز کو تبدیل کر کے ہماری سوچ کو مثبت بناتا ہے کیونکہ سارا مسئلہ ہی ہماری سوچ کا ہوتا ہے ۔ہماری سوچ ہی ہماری شخصیت کا تعین کرتی ہے۔ اور ایک مصنف کی شخصیت سحرانگیز ہوتی ہے جو پڑھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے آج کے سوشل میڈیا کے پرفتن دور میں جہاں ہر کوئی خود کو مصنف سمجھ بیٹھا ہے اور ایسی ایسی تحاریر دیکھنے کو ملتی ہیں کہ خدا کی پناہ ! اول تو پڑھا ہی نہیں جاتا لیکن اگر غلطی سے بھی کچھ پڑھ لیا جائےتو سر شرم سے جھک جاتا ہے اور انسان خود سے بھی نظریں ملانے کے قابل نہیں رہتا ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ پھر بھی ان فحش مواد لکھنے والوں کے اکاؤنٹس پر لائیکس کی بھرمار ہے اور لوگ مزید فحش قسم کے مواد کی فرمائش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ آخر اسکی کیا وجہ ہے کہ لوگ اس طرح کے فحش مواد کی ہی ڈیمانڈ کیوں کررہے ہیں تو اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کومصنف کی زمہ داریوں کا پتا ہی نہیں ۔انہیں اس بات کی خبر ہی نہیں کہ مصنف تو اپنے معاشرے کی اصلاح کے لئے قلم اٹھاتا ہے ۔اور اسکا مقصد تو صرف اور صرف حق اور باطل کو جدا جدا کرنا ہے لیکن موجودہ دور میں پائے جانے والے نام نہاد مصنف معاشرے کی اصلاح کرنے کی بجائے خود معاشرے کو باطل کے حوالے کر رہے ہیں۔ اور یوں معاشرتی بگاڑ پیدا ہو چکا ہے جو کہ آنے والی نسلوں کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوگا ۔ میں سوچتی ہوں کہ اس بے حیائی کے پھیلنے میں قصور کس کا ہے، لکھنے والے کا یا پڑھنے والے کا ، جہاں تک مجھے لگتا ہےتو اس کے سب سے زیادہ قصوروار قارئین ہیں کیونکہ لکھنے والا وہ ہی لکھتا ہے جو اسکے قارئین پڑھنا پسند کرتے ہیں اور یوں یہ بے حیائی پھیلتی ہی جا رہی ہے ۔ لکھاری حضرات یہ بھول چکے ہیں کہ جو قلم انہیں عطا کیا گیا ہے یہ کوئی عام قلم نہیں ہے بلکہ یہ وہ خاص اور مقدس قلم ہے کہ جس کی قسم خود اللہ پاک نے کھائی ہے۔ اور صرف قسم ہی نہیں کھائی بلکہ ایک پوری سورت اس کے نام سے نازل فرمادی قسم ہے قلم کی اور جو کچھ وہ لکھتے ہیں (القلم) ۔ یہ وہ قلم ہے کہ جس سے اللہ پاک کی برحق کتاب لکھی گئی،یہ وہ قلم ہے کہ جس کی طاقت کا کچھ علم انسان کو بھی دے دیا گیا ہے۔لیکن صاحب قلم یہ بھول چکے ہیں کہ اللہ پاک نے یہ قلم کس لئے پیدا کیا ہے ۔اس کے پیدا کرنے کی وجہ کیا تھی ۔ اسکی اصل وجہ تھی “حق اور سچ لکھنا”۔ اس قلم کے ذریعے تو ہمیں حق اور سچ لکھنا تھا ، اس قلم کے ذریعے تو ہم نے جہاد بالقلم کرنا تھا ۔ اس قلم کے ذریعے ہی تو ہم نے حق کو باطل سے جدا کرنا تھا لیکن افسوس! سد افسوس ! کہ اس قلم کے ذریعے لوگوں نے وہ بےہودہ قسم کی تحریریں لکھ ڈالی ہیں کہ ایمان کہ بچنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ صاحب قلم یہ بھول چکے ہیں کہ ان کی لکھی گئی تحریروں کے متعلق ان سے سوال ہوگا ۔قلم کی نوک سے نکلا ہوا ہر لفظ روز محشر ہمارے حق میں یا ہمارے خلاف گواہی دے گا، لیکن انسان نے اسے مذاق بنا رکھا ہے ۔ کبھی اس سے لوگوں کی خوشامد کی جاتی ہے تو کبھی ان کے ڈر سے جھوٹ لکھ دیا جاتا ہے، کبھی اس قلم سے سے لوگوں پر بہتان لگائے جاتے ہیں تو کبھی اس سے جب چاہیں ان کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں اور حقائق کو توڑ مروڑ کے پیش کیا جاتا ہے۔ لوگوں نے اس قلم کو پیشہ بنا لیا ہے لیکن اس سے اللہ پاک کا حق ادا نہیں کیا۔ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس قلم کی طاقت سے نوازا ہے تو ہمیں چاہیے کہ اس کا درست استعمال کریں۔ کیونکہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔ تلوار جب حق کے لئے چلتی ہے تو باطل کے سر تن سے جدا کر دیتی ہے لیکن جب قلم حق کے لئے چلتی ہے تو نسلوں تک کو سنوار دیتی ہے ۔اس لئے مصنف حضرات کو چائیے ہمیشہ حق اور سچ لکھیں ۔ یہ وہی قلم ہے کہ جس نے قوموں کو غفلت کی نیند سے بیدار کیا ۔علامہ اقبال جیسے عظیم مصنف نے اسی قلم کا استعمال کرتے ہوئے اپنی قوم کو جگایا، ان کے اندر ایک نئی روح اور ایک نیا ولولہ پیدا کیا ، جس کی وجہ سے آج ہم اس خطے پر عزت و شان سے رہ رہے ہیں ۔بے شک قلم میں بہت طاقت ہے لیکن پھر افسوس کہ آج کل کے لوگوں نے اسے بے حیائی پھیلانے کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور اپنا مصنف ہونے کا اصل مقصد ہی بھول بیٹھیں ہیں ۔خدارا اگر آپ کو اللہ نے اس عظیم نعمت سے نوازا ہے تو اس کا صحیح استعمال کریں تاکہ آپ کا لکھا ہوا قیامت تک صدقہ جاریہ بن جائے ۔ (آمین)

اپنا تبصرہ بھیجیں