وزیر اعلیٰ مریم نواز کے شفاف، انصاف پر مبنی نظامِ صحت کے دعووں کو مینٹل ہسپتال کی انتظامیہ نے پامال کر دیا
تنخواہوں کے لیے دھکے کھاتے ملازمین، ہسپتال انتظامیہ اور ٹھیکیدار کے درمیان الزام تراشی کا کھیل جاری
لاہور (خصوصی رپورٹ) مینٹل ہسپتال کے کنٹریکٹ ملازمین کئی مہینوں سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا شکار، مگر ذمہ دار کون ہے؟ ہسپتال انتظامیہ اور ٹھیکیدار ایک دوسرے پر الزامات دھر کر اپنی جان چھڑا رہے ہیں۔ متاثرہ ملازمین در بدر، کوئی شنوائی نہیں۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ لاہور میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے درجنوں صفائی و سیکیورٹی ملازمین کئی مہینوں سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا شکار ہیں۔ جب یہ ملازمین تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے انتظامیہ سے رجوع کرتے ہیں تو انہیں “ٹھیکیدار کے پاس جاؤ” کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا ہے، اور جب ٹھیکیدار کے پاس پہنچتے ہیں تو وہ فرماتے ہیں۔”ہسپتال نے چیک نہیں دیا!” جبکہ ہسپتال انتظامیہ دعویٰ کرتی ہے۔”چیک تو ہم نے دے دیا، اب یہ ٹھیکیدار کی ذمہ داری ہے!” یہ “الزام در الزام” کی پالیسی صرف وقت گزارنے کا ہتھکنڈا ہے تاکہ کمزور طبقے کو تھکا کر خاموش کروا دیا جائے۔ اس گھن چکر میں متاثرہ ملازمین نہ صرف معاشی اذیت کا شکار ہو رہے ہیں اور گھروں کے چلولے بند ، بچےّ اور ان کے گھر میں فاکے کاٹنے ہر مجبور اور اس ریاست سے ان کا اعتماد بھی سرکاری نظام انصاف سے اٹھتا جا رہا ہے۔ مزید افسوس ناک امر یہ ہے کہ میڈیا میں متعدد بار ان مسائل کو اجاگر کیے جانے، اور ملازمین کی جانب سے کئی تحریری شکایات جمع کرانے کے باوجود، ہسپتال کے کسی اعلیٰ افسر کے خلاف آج تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ یہ صورتحال وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کے اس ویژن کی صریح خلاف ورزی ہے، جس میں سرکاری اداروں کو شفاف، بااخلاق، اور جوابدہ بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ایسے عناصر وزیراعلیٰ کے اصلاحاتی عمل کو نقصان پہنچا رہے ہیں، جن پر فوری اور فیصلہ کن کارروائی ناگزیر ہے۔
مینٹل ہسپتال میں خاکروبوں اور سیکیورٹی عملے کے استحصال کی خوفناک داستان سامنے آ گئی
نہ تنخواہیں، نہ حقوق، سالہا سال سے جینیٹوریل کنٹریکٹ ملازمین اذیت کا شکار ٫2025 کے نئے ٹینڈر میں165 ملازمین کی جعلی حاضری، کرپشن کا بازار گرم آڈٹ کروایا جائے اور کرپٹ مافیا کے خلاف شفاف انکوائری کروا کر سزا دی جائے۔
ایسی کمپنیوں کے کو بلیک لسٹ کیا جائے اور پینلٹی ڈال کر ریکوری کروائی جائے۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ لاہور میں سالانہ کی بنیاد پر کنٹریکٹ پر کام کرنے والے خاکروبوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ گذشتہ کئی برسوں سے ناقابلِ برداشت استحصال کا سلسلہ جاری ہے۔ 2025 کے تازہ ترین ٹھیکے میں بھی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے، جہاں درجنوں غیر حاضر ملازمین کی حاضری ظاہر کر کے مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی کرپشن کی جا رہی ہے۔ معاملے کی تہہ میں جائے بغیر یہ کہنا مشکل ہے کہ اصل ذمہ دار کون ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے شفافیت اور انصاف کے ویژن کی دھجیاں اُڑ گئیں۔
مینٹل ہسپتال میں جاری کرپشن وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کے اعلانات کے برعکس ادارے میں بدعنوانی، ملازمین کا استحصال، حکومتی اصلاحات پر سوالیہ نشان وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے صوبے کے تمام سرکاری اداروں میں شفافیت، کرپشن کے خاتمے اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کو اپنا اولین مشن قرار دیا ہے۔ مگر پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ لاہور میں صورتحال بالکل اس کے برعکس ہے ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے اپنے متعدد بیانات، خطابات اور پالیسی اعلانات میں اس عزم کا ارادہ کیا ہے کہ سرکاری اداروں میں شفافیت لائی جائے گی، ہر سطح پر کرپشن کا خاتمہ کیا جائے گا اور مزدوروں کو ان کا جائز حق، خصوصاً کم از کم تنخواہ، ہر صورت میں مہیا کی جائے گی۔ تاہم پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ لاہور کی زمینی صورتحال وزیر اعلیٰ کے ان دعوؤں اور وعدوں سے مکمل تضاد رکھتی ہے۔ ادارے میں سالہا سال سے جاری بدانتظامی، ٹھیکیداری نظام میں بے ضابطگیاں، ملازمین کی تنخواہوں میں تاخیر، جعلی حاضریاں اور اعلیٰ افسران کی ملی بھگت وزیر اعلیٰ کے ویژن کو چیلنج کرتی نظر آتی ہیں۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ محترمہ مریم نواز شریف نے اپنے دورِ حکومت میں صوبے کے متعدد اسپتالوں کے دورے کیے، اصلاحات کے اعلانات کیے، مگر مینٹل ہسپتال جیسے حساس ادارے کی جانب مسلسل چشم پوشی برتی گئی ہے۔ یہاں کام کرنے والے کم ترین درجے کے ملازمین جن میں خاکروب، سیکیورٹی گارڈز، اور دیگر معاون عملہ شامل ہے، بارہا درخواستیں اور شکایات دے چکے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب واقعی اپنے ویژن کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہیں تو سب سے پہلے ایسے اداروں پر فوری ایکشن لینا ہوگا جو ان کے اصلاحاتی ایجنڈے کے منہ پر طمانچہ بن چکے ہیں۔ ورنہ عوام کا اعتماد نہ صرف اداروں بلکہ حکومت پر بھی متزلزل ہو سکتا ہے۔ شہری، سماجی تنظیمیں اور متاثرہ ملازمین وزیر اعلیٰ پنجاب، چیف سیکریٹری، اور سیکریٹری ہیلتھ سے اپیل کرتے ہیں کہ مینٹل ہسپتال میں جاری کرپشن اور استحصال کا فوری نوٹس لے کر مثالی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ وزیراعلیٰ کا ویژن زمینی حقیقت میں تبدیل ہو سکے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ لاہور میں کنٹریکٹ پر خدمات انجام دینے والے خاکروب اور سیکیورٹی اہلکار پچھلے 3 سے 4 سالوں سے سخت استحصال کا شکار ہیں۔ نہ صرف یہ کہ انہیں پنجاب حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم تنخواہ تک نہیں دی جا رہی، بلکہ سابقہ کنٹریکٹس میں دو سے تین ماہ تک کی تنخواہیں دینے کے بجائے ملازمین کو خاموشی سے فارغ کر دیا گیا۔ 2023 میں سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر فارخ عبداللہ کے دور میں 105 ملازمین پر مشتمل صفائی کا معاہدہ تھا جسے موجودہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ثاقب باجوہ نے 105 سے 165 ملازمین تک بڑھا دیا۔ مگر حیرت انگیز طور پر 2025 میں اسی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے ایک نیا معاہدہ 165 ملازمین کے لیے جاری کر دیا۔ مزید تشویشناک پہلو یہ ہے کہ موجودہ ٹھیکے میں 60 سے 70 ایسے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی دکھائی جا رہی ہے جو درحقیقت ہسپتال میں کام ہی نہیں کرتے۔ ان “بھوت ملازمین” کی تنخواہیں مبینہ طور پر ٹھیکیدار اور ہسپتال انتظامیہ کی ملی بھگت سے ہڑپ کی جا رہی ہیں۔ باوثوق ذرائع نے انکشاف کیا کہ ان بے ضابطگیوں پر متعدد بار آڈٹ میں اعتراضات بھی اٹھائے گئے، تاہم موجودہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ثاقب باجوہ کے دور میں کسی قسم کی اصلاحِ احوال نہیں کی گئی۔ یہ تمام صورتحال وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کے اس ویژن کے سراسر منافی ہے جس میں انہوں نے بارہا عوامی اداروں میں شفافیت، بدعنوانی کے خاتمے اور ملازمین کو ان کے جائز حقوق فراہم کرنے پر زور دیا ہے۔ شہری، ملازمین اور سماجی حلقے حکومت پنجاب اور محکمہ صحت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس کرپشن اسکینڈل کی فوری تحقیقات کروا کر ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ سرکاری اداروں میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے اور محکمہ صحت کے وقار کو بحال کیا جا سکے۔ مینٹل ہسپتال میں ملازمین پر تشدد اور دھمکیاں، انتظامیہ کی بدعنوانی کے سائے تلے خوف و ہراس۔ ڈاکٹر عتیق الرحمٰن کے حکم پر سرکاری ملازم نے دوسرے ٹھیکہ دار کارکن پر تشدد کیا۔ راشد بہرا نامی ملازم کی سرپرستی میں دیگر ملازمین کو بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، غیر جانبدارانہ رویہ عروج پر۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں تشویشناک اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر عتیق الرحمن نے ملازمین پر زبردست دباؤ اور ظلم ڈھانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ان کے حکم پر سرکاری ملازم راشد بہرا نے ایک ٹھیکہ دار ملازم کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اسے حراست میں لے لیا۔ ایڈمنسٹریٹر پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ ڈاکٹر عتیق الرحمٰن نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے سرکاری ملازم راشد بہرا کو ہدایت دی کہ وہ ایک معاہدہ شدہ کارکن کو جسمانی طور پر ہراساں کرے، دھمکائے اور حراست میں لے۔ راشد بہرا، جو خود سرکاری ملازم ہے، نے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف متعلقہ کارکن کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ اس سلسلے میں دو اور افراد کی مدد بھی لی گئی۔ اس واقعے کے بعد دیگر صفائی اور سیکورٹی کے کارکنوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور انہیں مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں تاکہ وہ اس ظالمانہ رویے کے خلاف آواز نہ اٹھائیں۔ ابتدائی طور پر یہ خیال کیا گیا تھا کہ راشد بہرا خود متاثرہ ہے، لیکن تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ درحقیقت حملہ آور تھا اور یہ سب کچھ ڈاکٹر عتیق الرحمٰن کے براہِ راست حکم پر ہوا۔ اس قسم کے واقعات نہ صرف کارکنوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں بلکہ یہ انتظامیہ کی نااہلی اور بدانتظامی کا منہّ بولتا ثبوت بھی ہیں۔ چیف منسٹر پنجاب مریم نواز شریف کی شفافیت، احتساب، اور ورکرز کے حقوق کے تحفظ کی جو نظریات ہیں، وہ اس طرح کے واقعات سے بری طرح متصادم ہیں۔ ماہرین نے اس واقعے کو ادارے میں خوف کے ماحول کا نتیجہ قرار دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائیں، ذمہ داروں کو سخت سزا دی جائے اور کارکنوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ وہ بلا خوف اپنی ذمہ داریاں انجام دے سکیں۔