بیزار زندگی اور عوام ۔۔۔ تحریر : محمد نوید خان


غریب عوام زندگی سے بیزار ہیں، ایک بل کی ادائیگی کا بندوبست کر لیں تو بچوں کی تعلیم اور دو وقت کی روٹی دشوار ہے۔ ان چوروں نے اپنے مفادات کے لیے کروڑوں لوگوں کو مجبور کر دیا ہے۔آج تک خود پاکستانی لیڈروں کو بھی یہ پتہ نہیں چلا ہے کہ عوام ان سے کتنے بیزار ہو چکے ہیں حالانکہ عوام کے لبوں سے قومی ترانے کی طرح یہ الفاظ نکلتے رہتے ہیں کہ جب بھی کوئی نیا ’’سیاسی تماشا‘‘ ہوتا ہے وہ گانا شروع کر دیتے ہیں کہ
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم ’’بیزار‘‘ بیٹھے ہیں
مخصوص چہرے اور خاندان ہیں جو گویا پاکستانی بدنصیب عوام اپنے مقدر میں پکے پکے لکھوا کر لائے ہیں۔ یہ چہرے نہایت ہی زیادہ استعمال بلکہ غلط کثرت استعمال سے اتنے زیادہ بدرنگ ہو چکے ہیں کہ یہ لوگ خود بھی اپنے چہرے آئینے میں دیکھنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں اپنی ہی نحوست خود ان پر مسلط نہ ہو جائے۔ ہمیں باوثوق ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ یہ مخصوص اور منحوس چہرے آجکل آئین اور آئینے دونوں کو توڑنے میں لگتے رہتے ہیں کہ اگر اپنا چہرہ کہیں خود دیکھ لیا تو سارے سیاسی کیریئر پر نحوست چھا جائے گی، اصل میں ان کو پتہ چلا ہے کہ پاکستانی عوام کی بدنصیبی کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ دن رات ٹی وی اور اخباروں میں یہی چہرے دیکھتے رہتے ہیں مجھ کو بے رنگ نہ کر دیں کہیں یہ اتنے رنگ اگر صرف چہروں کا معاملہ ہوتا تو پھر بھی غنیمت تھا لیکن یہاں تو کچھ نام بھی بہت زیادہ کثرت استعمال میں ہیں ۔۔۔ انقلاب فرانس کے بارے میں کسی نے کہیں مزاحیہ طور پر لکھا ہے کہ ’’انقلاب فرانس‘‘ کی وجہ کیا تھی؟ تو جواب یہ دیا گیا کہ وہاں ’’لوئی‘‘ بہت زیادہ ہو گئے اور عوام اس ’’لوئی‘‘ نام سے تنگ آ کر انقلاب پر اتر آئے تھے اور یہ بات دل کو لگتی ہے کیونکہ انقلاب فرانس کے وقت وہاں جو ’’لوئی‘‘ بادشاہ تھا وہ غالباً سترھواں لوئی (لوئی ہفت دہم) تھا، فرانس کے لوگ بڑے دل والے تھے اتنے زیادہ لوئیوں کو برداشت کرنا واقعی دل گردے کا کام ہے دیکھا جائے تو پاکستانی عوام کی کہانی بھی فرہاد ہی کی کہانی سے ملتی جلتی ہے یہاں بھی 76سال سے عوام نامی فرہاد کو ’’خوش حالی کی شیریں‘‘ کا جھانسہ دے کر پہاڑ کھودنے پر لگایا گیا ہے لیکن ساری زندگی ’’پہاڑ‘‘ کھودنے کے بعد وقت کی بڑھیا انھیں بتاتی ہے کہ کون شیریں ،کہاں کی شیریں؟ اکثر تو مارے دکھ کے تیشہ سر پر مار کر چلے جاتے ہیں لیکن کچھ مہم جو لگے رہتے ہیں،پورے ملک میں قانون نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی سویلین ادارے اپنی من مرضی کر رہے ہیں۔ اس طرح دکاندار سے لیکر ریڑھی بان تک دیہاڑی دار سے لیکر ٹھیکیدار تک سب کے سب دھوکا دہی کا بازار سجائے بیٹھے ہیں مگر قانون پر عمل درآمد کروانے والے اہلکار آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ اْدھر سستی زمینیں لیکر مہنگے داموں فروخت کرنے والامافیا غریب عوام کو لوٹ رہا ہے، اشیائے صرف سٹاک کر کے بیچنے والے تاجر حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں وہ چیز جو انہوں نے ایک سو روپے میں خریدی ہوتی ہے اسے روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی قیمت کے حسا ب سے صارفین کو دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ یہ ناجائز منافع خوری ہے۔اس اجتماعی بگاڑ کی ذمہ داری اہل اقتدار پر عائد ہوتی ہے مگرشاید وہ مافیاز کے ہاتھوں بے بس ہیں یا پھر انہوں نے دانستہ انہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔وجہ اس کی یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے ان سے اپنی سیاست کا ری میں تعاون حاصل کیا ہوتا ہے انتخابات کے دوران کمپین کے کچھ اخراجات بھی ان کے ذمہ ہوتے ہیں لہٰذا ان لوگوں سے منہ پھیرنا یعنی انہیں نظر انداز کرنا ان کی ”مجبوری“ بن جاتی ہے۔اورمنحوس آمریت جو بدقسمتی سے اس وقت ہمارا موضوع بحث ہے۔ رجعت پسندی کو جنم دیتی ہے اورعقل و شعور کو جامد اور غیر متحرک بناکر رکھ دیتی ہے ،چنانچہ آمریت کے مارے ہوئے سخت بدنصیب ہوتے ہیں۔ آمریت کے اسیر بالخصوص وہ جو مفلس ہوں، سب کے سب بدنصیب ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی حرکت نہیں ہوتی ان کا شعور پست ہوتا ہے۔ ان کااحساس پست ہوتا ہے ان کا اخلاق پست ہوتا ہے۔ کسی نے انہیں پتھر کے کیڑے سے کیا ہی خوب تشبیح دی ہے، لیکن انہیں لعن طعن کرنے کے بجائے ان پر ترس کھانا چاہیے اور پتھر کی اس چٹان یعنی آمریت کو توڑنا چاہیے۔ خواہ ناخنوں سے کھرچ کھرچ ہی ایسا کرنا پڑے پاکستانی عوام اپنے لیڈروں سے بیزار بالکل بھی نہیں ہیں ’’بے جان‘‘ البتہ آپ ان کو کہہ سکتے ہیں لیکن بیزار بالکل بھی نہیں، کیونکہ 76سال کی مسلسل بیزاری نے ان کو بے زاری سے ہی بیزار کر دیا ہے۔
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہئے کہ آرزو کیا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں