فلسطین ایک پاک سر زمین ۔۔۔ تحریر : آمنہ اسلم (فقیروالی، ہارون آباد)

سر زمین فلسطین ایک نہایت مبارک اور محترم جگہ ہے۔ یہ سر زمین آسمانی رسالتوں اور پیغاموں کا سرچشمہ رہی ہے۔ اس زمین پر اکثر انبیاء اور رسل آۓ ہیں۔ یہی وہ سر زمین ہے جہاں سے معراج کی ابتدا اور انتہا ہوئی۔ یہ آسمان کا دروازے ہے۔ یہ سر زمین محشر بھی ہے۔
یہودیوں نے 24 مئ 1948 کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو اسرائیل اور عرب ممالک میں جنگیں چھڑ گئیں۔ یہ جنگیں 1967 تک چلیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا ۔ مقدس مقامات تاریخ میں پہلی مرتبہ یہودیوں کے قبضے میں آ گئے ۔
عیسائیوں نے یہودیوں سے بے انتہا بغض کی وجہ سے “قبتہ الصخرۃ” ( dome of rock) کو ڈھک دیا تھا جس کو یہودی مقدس مانتے ہیں ۔ مسلمانوں کے نزدیک اس کی اہمیت یہ ہے کہ معراج کی رات حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا براق اس چٹان سے اوپر کو اڑا تھا۔
اللّٰہ عزوجل نے سر زمین فلسطین کو خیر و برکت والی زمین فرمایا ہے ۔ جریر طبری فرماتے ہیں کہ یہاں دائمی اور ابدی طور پر خیر و برکت قائم رہے گی ۔
علامہ شوکانی کے لئے برکت کے معنی میں یہاں کے پھل ہیں جو کہ پیداوار میں بہت زیادہ ہوں گے۔ برکت سے مراد انبیاء ، صلحا اور نعمتیں بھی مراد لیا گیا ہے
اللّٰہ تعالیٰ نے سر زمین فلسطین کو سر زمین محشر بھی فرمایا ہے۔ ۔
ارشادِ ربانی ہے ۔”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد اقصیٰ تک لے کر گئ۔ جس کے اردگرد ہم نے اپنی کچھ برکتیں نازل کی ہیں تا کہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھا سکیں۔ بےشک وہ ہر بات سننے والی ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے۔ (الاسراء ۔۔1)

اور ہم نے نجات دی اسے اور لوط کو اس زمین کی طرف جو کہ ہم نے برکت میں رکھی۔ اس میں تمام جہان والوں کے لئے۔ (الانبیاء:71)
قرآن مجید میں کئی مقامات پر نام لئیے بغیر سر زمین فلسطین کا ذکر آیا ہے۔
“اور ہم نے فیصلہ سنا دیا بنی اسرائیل کو کتاب میں کہ بلاشبہ
ضرور تم فساد کرو گے زمین ۔یں دو دفعہ اور ضرور بالضرور تم چڑھائی کرو گے بہت بڑی چڑھائی۔( الاسراء:4)
اسرائیل اور فلسطین میں کشیدگی ایک بار پھر بہت بڑھ چکی ہے۔ اور امن کی امید آج بھی بہت دور معلوم ہوتی ہے۔ بیت المقدس تمام مزاہب کے ماننے والوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے ۔ یہاں مذہب ایک بڑی طاقت اور اہمیت کا حامل ہے ۔
اس وقت ساری دنیا کی نظر فلسطین اور اسرائیل پر ہے۔ مسلمان ممالک کو بیت المقدس کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں ۔ صرف زبانی احتجاج کرنے سے کچھ نہیں ہو گا کیونکہ یہ ہر مسلمان کے لئے فرض اول ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ مقدس سر زمین فلسطین کی طرف سے جہاد کی دعوت دینے پر کتنے مسلمان اپنے قبلہء اول کوبچانے کیلئے نکلتے ہیں ۔ ہمارا ایمان بطورِ مسلمان اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیے کہ ہم چپ چاپ دیکھتے رہیں۔ اگر کچھ بھی نہیں کر سکتے تو احتجاج تو کر سکتے ہیں اور مسلمان ممالک کے سربراہان کو اس مسئلے پر خاص توجہ دینی چاہیے ۔ اللّٰہ تعالیٰ سب مسلمان بہن بھائیوں کے لئیے آسانیاں فراہم کرے۔ آمین
شکریہ فی امان اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں