چوہدری آرٹس سوسائٹی اینڈ کلچرل ونگ کے نویں یوم تاسیس کی مکمل روداد ۔۔۔ تحریر : ڈاکٹر غلام مرتضیٰ

السلام علیکم ! یہ سات دسمبر 2024 بروز ہفتہ کی ایک کم سرد لیکن دھندلکی بھیگتی مہکتی رات تھی۔ اور تھانہ موڑ نزد کلمہ چوک سے چند قدم آگے بالمقابل سول کورٹس کے عقب میں کائنات ریسٹورنٹ اینڈ فیملی کیبن میں چوہدری آرٹس سوسائٹی اینڈ کلچرل ونگ کے نویں عظیم الشان یاد گار یوم تاسیس کا تزک واحتشام سے بھرپور اور خوبصورت انداز میں انعقاد کیا گیا۔ ریسٹورنٹ کی اپر سٹوری فرسٹ فلور کے ھال نمبر 2 کو خیر مقدمی بینرز اور چوہدری آرٹس سوسائٹی اینڈ کلچرل ونگ کے خوبصورت اور رنگا رنگ پینا فلیکسز پر چوہدری آرٹس سوسائٹی اینڈ کلچرل ونگ فن و ثقافت کی خوبصورت تحریروں کو پیرا گراف میں عبارات کنندہ تھیں۔ جن میں نہایت کمال مہارت اور سلیقے سے ترتیب و تزین کے ساتھ آویزاں کیا گیا تھا۔ رنگ و برق اور فانوس کی روشنی میں چوہدری آرٹس سوسائٹی اینڈ کلچرل ونگ کے صدر ایم افضل چوہدری کے علاوہ جنرل سیکرٹری محمد عثمان سیالوی، سیکرٹری اطلاعات و نشریات طارق رحمان، میڈیا ایڈوائزر برائے سوسائٹی نعیم خان، فنانس سیکرٹری غلام مصطفیٰ صدیقی اور ایڈیشنل سیکرٹری کلچرل امور مشتاق احمد اور مہمانان گرامی عظیم مبلغ سرمایہ اہلسنت سیاسی و سماجی شخصیت سابق امیدوار قومی اسمبلی حلقہ این اے 113 تحریک لبیک پاکستان پیر فرخ سلیم چشتی پرنسپل دارالعلوم غوثیہ حنفیہ حافظ قمر عباس سیالوی پرنسپل گورنمنٹ پی ایس ٹی ڈگری کالج رانا ذوالفقار صاحب اور عظیم سکالر ڈاکٹر علامہ عباس انصاری کے علاوہ چیف گیسٹ سینئر نائب صدر انجمن آڑھتیاں سبزی و فروٹ منڈی چوہدری ناصر رحمانی اور جنرل سیکرٹری حافظ محمد ناصرکے علاوہ بلڈنگ ڈویلپمنٹ کے انچارج سابق ایس ڈی او نور احمد آسی اور چوہدری آرٹس سوسائٹی کلچرل ونگ کے دیگر عہدیدار پوری دل جمعی تیاری اور جامع انداز میں تشریف لائے تھے۔ انکے علاوہ دیگر شخصیات جن میں معروف صحافی منظور احمد انصاری کے علاوہ بزنس مین محمد جاوید چشتی ابراہیم رحمانی آصف عمران، زین العابدین امداد مغل اللہ رکھا انور شامل ہیں۔ معزز مہمانان گرامی اور مہمانان اعزاز کا انتہائی پرتپاک انداز میں استقبال کیا گیا۔ اور قومی ترانے کی دھن میں پروگرام کے باقاعدہ آغاز سے قبل اسٹیج سیکرٹری کے فرائض چوہدری آرٹس سوسائٹی اینڈ کلچرل ونگ کے صدر ایم افضل چوہدری نے سنبھالے اور ابتدائی کلمات کی ادائیگی کے فوراً بعد پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید فرقان حمید سے شروع کیا گیا۔ تلاوت کا شرف قاری محمد آصف نے حاصل کیا اور سور ۃرحمن کی آیت کریمہ کی تلاوت کیں اور آقائے دوجہان حضرت محمد ؐکے باحضور نذرانہ عقیدت کے پھول شہرہ آفاق نعت خوان سید فاروق ہاشمی نے پیش کیے اور حاضرین سے خوب دا د تحسین وصول کی اور یہ امر نہایت قابل ذکر تھا کہ پروگرام کے آغاز میں ہی ماحول ساہرانہ سا ہو کر رہ گیا۔ سوسائٹی کے صدر ایم افضل چوہدری نے تفصیلی طور پر استقبالی اور خیر مقدمی کلمات ادا کیے اور شرح صد سے چوہدری آرٹس سوسائٹی اینڈ کلچرل ونگ کے اغراض و مقاصد پر مفصل روشنی ڈالی۔ اور وجدانی پُر اثر خطاب میں کہا کہ قرآن حدیث کی رو سے نبوت کا مسئلہ ایمانیات اور اعتقادیات میں اساسی اہمیت رکھتا ہے ۔ بلکہ صاف اور واضح الفاظ میں یہ کہنا چاہیئے کہ یہ مسئلہ کفر و اسلام سے تعلق رکھتا ہے اگر کوئی واقعی اللہ کا رسول یا نبی ہے اور خاکم بدہن اگر ہم اسکا انکار کرتے ہیں تو ہمارے ایمان کی ساری عمارت منہدم ہو جاتی ہے اور ہم کافر ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہ الوہیت ، رسالت وحی اور آخرت ہی پر یقین کا نام ایمان ہے۔ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی اگر ہمارے یقین اور ایمان میں کوئی معمولی سا فتور موجود ہے تو ہم مومن نہیں ہو سکتے۔ اسکے برعکس یہ صورت بھی ہے کہ اگر کوئی نبی یا رسول نہیں ہے اور ہم اسکو رسول یا نبی تسلیم کرتے ہیں تو ہم صرف کافر ہی نہیں ہوتے بلکہ اللہ اور اس کی مقدس کتاب پر اس سے بڑھ کر کوئی ظلم نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء مبعوث ہوتے ہیں اور رسولوں کو اللہ تعالیٰ ہی بھیجتا ہے اگر کسی کو اس نے نہیں بھیجا ہے اور ہم یہ کہ دیتے ہیں کہ اللہ نے بھیجا ہے تو یہ سراسر افتر اور بہتان ہے ایہ ایسا بدترین جھوٹ ہے جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کر سکتی ۔اسکے بعد مہمان گرامی رانا ذوالفقار نے اپنے تہہ نیتی پیغام میں کہا کہ نبوت کے مسئلے کو مذاق بنانے والی قومیں کبھی ہدایت نہیں پا سکتیں ۔ کتاب و رسالت ہی اصل سرچشمہ ہدایت ہے اور اگر رسالت اور نبوت ہی کے سلسلے میں ہمارا ذہن صاف نہ ہو تو ہمیں کبھی منزل نصیب نہیں ہو سکتی۔ رسالت اور نبوت کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسانوں کی ہدایت و رہبری کےلئے انبیاء ہمیشہ آتے رہے اور ان پر کتابوں کا نزول بھی ہوتا رہا ہے مگر حضور ﷺ سے پہلے جتنے انبیاء اور مرسلین تشریف لائے انکی بعثت و رسالت خاص خاص اقوام کی طرف تھی ۔ کسی نبی کے مخاطب سارے انسان اور سارے عالم کے لوگ نہیں تھے ۔ کتب سماوی کی تعلیمات بھی مخصوص عہدے کے لیے تھیں اور وہ زمان و مکان پر محیط نہ تھیں لیکن جب انسانی تمدن نے ارتقا کی منزلیں طے کر لیں اور وہ اس مقام پر پہنچ گیا کہ جہاں سے کسی نبی کا پیغام عام ہو سکے، اور دوسری طرف ہدایت حق کو قبول کرنے والوں کی ایک امت بھی بن گئی جو کتاب الہٰی اور نبی کی سیرت کو من و عن محفوظ رکھ سکے تو سلسلہ نبوت و رسالت آنحضرت ختمی مرتبت ﷺ پر سارے اوصاف کمال کے ساتھ ختم کر دیا .گیا اور قیامت تک باقی رہنے والی تعلیمات پر مشتمل نیز ہمہ گیر خصوصیت رکھنے والی اور ساری نوع بشر کو مخاطب بنانے والی کتاب نازل فرما کر وحی کا سلسلہ بھی ختم فرما دیا گیا اب کسی کو مزید اس کام پر ماور کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ مہمان گرامی پیر فرخ سلیم چشتی نے اپنے مدبرانہ بیان میں کہا کہ دنیا کے حالات خود خاتم الانبیاء نیز عالم گیر دین اور مکمل کتاب کا تقاضا کرنے لگے تھے اس لیے حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری پیغمبر بنا کر ساری انسانیت کی ہدایت و رہبری کے لیے مبعث فرمایا۔ آپ ﷺ کے بعد نہ تو کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی اللہ کی کتاب نازل ہوگی نہ کوئی دین آئے گا نہ کوئی شریعت نہ کوئی وحی آئے گی اور نہ کوئی اللہ کا پیغام آئے گا۔ اس لیے قرآن جس صورت میں نازل ہوا تھا آج بھی بغیر کسی ترمیم و اضافے کے اسی صورت میں موجود ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا کیونکہ اس کے مخاطب وہ سارے انسان ہیں جو خلعت وجود سے آراستہ ہو کر دنیا میں آتے رہیں گے۔ اسی کتاب کے ساتھ نبی کی ساری ہدایات اور ساری تعلیمات نیز سیرت اور اسوہ کی تفصیلات کے کا سارا ذخیرہ آج بھی موجود ہے حالا تو سوانح کا کوئی گوشہ مستور نہیں ہے جب کہیہ حال نہ دیگر آسمانی کتابوں کا ہے نہ انبیائے سابقین کے سوانح اور ان کی تعلیمات کا۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کے بعد کسی اور نبی کو دنیا میں بھیجنے والا ہوں لیکن اس کے برعکس قرآن نے آپ ﷺ کے خاتم الانبیا ہونے کا اعلان کیا اور متعدد آیات میں ایسے اشارے موجود ہیں کہ جن کی روشنی میں ختم نبوت کے عقیدے کو صحابہ کرام سے لے کر آج تک امت کے تمام طبقات نے جزوِ ایمان قرار دیا۔ معروف سکالر ڈاکٹر علامہ عباس انصاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ ختم نبوت کا ثبوت ہمیں قرآن میں ملے گا احادیث میں ملے گا اور اس عقیدے پر ہمیشہ سے اجماع امت رہا ہے کسی چیز کے حق ہونے کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ قرآن بھی ناطق ہو اور حدیث میں بھی واضح طور پر ثبوت موجود ہو اور اجماع بھی۔ آئیے ! سب سے پہلے آیات قرآنی پر غور کریں۔ “محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ،لیکن وہ اللہ کے رسول اور انبیائے کے خاتم ہیں”۔ تمام مفسرین خاتم النبین کے معنی آخری نبی بیان کرتے ہیں ۔ ختم نبوت کے سلسے میں تنہا یہی ایک آیت نہیں ہے بلکہ دوسری آیات میں بھی اشارے موجود ہیں ۔ آپؐ پر سلسلہ نبوت کے اختتام کی دلیل یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ ساری نوع انسانی کے لیے ذریعہ ہدایت بنائے گئے۔ “اے نبی! ہم نے آپؐ کو تمام انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے” دوسری جگہ سورہ انعام میں انیسویں آیت میں ارشاد ہوا ہے ؛”اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تا کہ اس کے ذریعے سے تم کو اور ہر اس شخص کو متنبہ کردوں جسے پہنچے”۔ سورہ اعراف کی آیت 158میں ارشاد ہوا: “اور اے نبی کہہ دو اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں”۔ پرنسپل دارالعلوم جامعہ غوثیہ حنفیہ حافظ قمر عباس سیالوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب قرآن پاک آپﷺ کی ہمہ گیر اور آخری رسالت و نبوت کا اظہار، دین کی تکمیل، نعمتوں کے اتمام ، آپ کے رحمت ِ جہاں ہونے کے اعلان اور رہتی دنیا تک کے لیے نوعِ بشر کے لیے ذریعہ ہدایت کہہ کر رہا ہے تو پھر کسی اور نبی کے تصور کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ اللہ کے فیصلے اور اس کی رضا کے علم کا دوسرا بڑا ذریعہ ہمارے پاس حدیث ہے جس میں صراحت کے ساتھ آپ ﷺ نے سلسلہ نبوت و رسالت کے ختم ہونے کا اعلان فرمایا ہے۔ ترمذی میں حضرت انس بن مالک سے یہ حدیث مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ میرے بعد اب کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی یہ اور اس طرح کی بہ کثرت احادیثِ صحاح صاف اور صریح الفاظ میں آئی ہیں۔ قرآن و سنت کے بعد تیسرا درجہ اجماع صحابہ کا ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور جن لوگوں نے ان کی نبوت کو تسلیم کیا ان سب کے خلاف صحابہ کرام نے بالاتفاق جنگ کی۔ اجماع صحابہ کے ساتھ ساتھ علماء و مجہتدین بھی اس فیصلے پر ہے کہ آپﷺ پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔ پروگرام میں تقریباً ہر مکتبہ فکر اور ہر شعبہ زندگی کے ہر فرد نے جزوی طور پر شرکت کی۔ جن میں سابقہ بینک کار رانا ناصر محمود اور معروف آرٹسٹ اور پرنسپل اسلامیہ پرائمری سکول انیل صدیقی جنرل سیکرٹری پاکستان تحریک انصاف کمالیہ افتخار علی انجم، ساجد ملانہ پنجاب ٹوئریزم کے رکن رائے نسیم اللہ خان اور سوسائی کے اراکین ارسلان انصاری، محسن علی، معروف صحافی شبیر حسین، قاری اظہر حسین کے علاوہ سینئر نائب صدر ڈاکٹر شفیق چشتی اور کاشف چشتی، اقلیتی امور پر ایڈوائزر پاسٹر وحید قادر، محسن کمال، ملک ظفر اقبا ل اور انکے ساتھیوں نے شرکت کی۔ پروگرام کے اختتام سے قبل کانفرنس کا علامیہ جاری کیا گیا جس میں اس امر کی استدعا کی گئی کہ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کا آئندہ جب اسم گرامی پڑھا یا لکھا جائے تو اس کے ساتھ خاتم النبیین ﷺ یا خاتم النبی کنندہ کیے جائیں اور اس امر کو جزو ایمانی اپنایا جائے۔ حضرت محمد ﷺ آخری نبی ہیں اس کے بعد کوئی اور نبی کی آمد نہیں ہوگی اس طرح یہ خوبصورت ترین جل ترنگ شام غزل دبے پاؤں گزرتی شب کے ساتھ فوٹوز سیلفیز کے ساتھ ساتھ شاندار عشائیے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا اس طرح مدتوں نہ بھولنے والا یہ یاد گار خوبصورت اور عظیم الشان پروگرام دعائے خیر اور پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے سے اپنے اختتام کو پہنچا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں